ادب

ثاقب ، دھیمے پُرشکوہ اسلوب کا شاعر

پروفیسر رفیعہ سلطانہ

آج کل اردو شاعری اس قدر عام اور اتنی ارزاں ہوئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے اردو شاعری نے اپنا معیار اور وقار کھو دیا ہے۔ یہ امر خوش آئند بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، خوش آئند اس لئے کہ اس سے اردو زبان کی مقبولیت اور اس کی بے پناہ محبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ”طلب“ سے زیادہ ”رسد“ کی وجہ سے معیار اور درجہ میں گراوٹ آگئی ہے لیکن اس خس و خاشاک کے انبار میں ایسے پھول بھی کھلے ہیں جو مشامِ جاں کو معطرنہیں کرتے فضاءکو خوش گوار بھی بنادیتے ہیں“۔ ثاقب کا کلام ایسا گلِ تازہ ہے جس سے اردو شاعری میں ایک نئی آواز کا پتہ چلتا ہے۔ روایتی انداز سے تبصرہ کروں تو کرسکتی ہوں کہ اس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی لیکن سچ پوچھےئے تو یہ غزل روایتی انداز کی غزل نہیں اس کےلئے میں انگریزی اصطلاح Stargaic Form یعنی فقرہ واری اشعار یاقطعاتی رنگ کہنا پسندوں کروں گی۔ ان کے ہاں خیال مسلسل ملتا ہے اس میں علحدہ علحدہ اشعار یعنی غزل کی ریزہ کاری نہیں بلکہ نظم کی میناکاری ہے جو کبھی اردو سانیٹ کی خصوصیت تھی۔ پہلی خصوصیت اس کی موسیقیت یعنی نغمگی ہے پھر پوری غزل پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ شاعر نے پہلے خیال کو روشناس کروایا ہے گو یا! ابتدا کی ہے۔ پھر کسی نظر یہ یا خیال کو وسعت دی ہے یعنی ”ارتقاء“ ہے۔ آخری حصہ میں غزل انتہا کو پہونچ جاتی ہے یعنی Climax غزل میں سوزو گداز یا امید و یاس کر کے ثاقب آخری اشعار میں خاص رنگ اختیار کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں ذیل کے اشعار اس میں ابتدا میں جو حزن ہے وہ آخری شعر میں اس طرح واضح ہوتا ہے:
روشن سہی ہزار یہ تصویرِ کائنات
جن پر نقاب تھے وہی چہرے پڑھے گئے
لوٹا ہوں اپنے شہر کو میں جب کہ سارے لوگ
خود اپنی اپنی لاش اُٹھانے چلے گئے
ہزاروں زخم کھاکر بھی دیارِ حُسن میں ثاقب
اسی ظالم کو ہم اپنا مسیحا مان لیتے ہیں
مختصراً ثاقب اپنے دھیمے دھیمے پر شکوہ اسلوب اور اختتام کی گھن گرج کے ساتھ پڑھنے والوں کومسحور کردیتے ہیں۔ ان کی ہر غزل کا Poetic Closure اختتام خاصے کی چیز ہے وقت نہیں کہ ان کی غزلوں کے اس پہلو پر روشنی ڈالوں۔ قاری مطالعہ کے بعد اس کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ تو تھی غزلوں کی خصوصیت اب نظموں کا مطالعہ کیجئے۔ نظموں میں ابتدائی چند نظمیں، نثری نظم کے ذیل میں آتی ہیں لیکن چوں کہ نثری نظم ہے۔ البتہ قطعات نما نظمیں ”تغزل اور سانیٹ“ کا ملا جلا آمیزہ ہے جو ’جذبہ احساس‘ احساس‘ اور تعقل‘ کو مسحور کردیتا ہے۔ اس رنگ میں بھی ثاقب کامیاب ہیں بعض نقاد اسے فراق کی رباعیات ”روپ“ کے ذیل میں رکھ سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ رباعی کے روایتی تصور سے الگ ہے۔ اس میںکچھ کچھ سانیٹ کا رنگ ہے لیکن سانیٹ کی سی اشعار کی پابندی نہیں۔ ملاحظہ ہو:
وہ چاند ڈوب کے اُبھریں گے غم کی آنکھوں میں
سمندروں کی تہوں میں جنھیں دبا دوگے
نیاز عشق، تپِ آرزو، خلوصِ نظر
وفا کے نام پہ کس کس کو تم سزا دوگے
ثاقب کا آہنگ ہلکا پھلکا، موسیقی آمیز اور متاثر کن ہے جو ان کے ”مفردات“ یعنی Rhymed Couplets میں زیادہ جھلکتا ہے۔
زندگی تیرے تعارف میں بڑی دیر لگی
ورنہ کچھ دن کے لئے میں تجھے مہماں رکھتا
ثاقب کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ
روایتوں کے اُفق پر نئی کرن چمکی
نئے مزاج کی ثاقب غزل سناتا ہے
میرے خیال میں ”وقفہ خواب“ اردو شاعری میں ایک حسین اضافہ ہے اور غالباً سب قاری اسے پڑھنے کے بعد میرے اس بیان سے متفق ہوں گے۔ خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ زبان و بیان کی غلطیاں نہیں جو آج کل کے گرتے ہوئے اردو کے معیار کو دیکھ کرکوفت ہوتی ہے۔
عمر بھر خود کے نہ ہونے کا گُماں رکھتے تھے
خشک سینوں میں گُلابوں کا جہاں رکھتے تھے
دوڑتے، رُکتے زمانوں ہی نے پوچھا نہ ہمیں
ہم نہ پتھر تھے نہ پتھر کی زباں رکھتے تھے
شہرِ احساس میں قلت تھی خریداروں کی
ہم سجائے ہوئے افکارِ جواں رکھتے تھے
نام اپنا بھی کھدا ہوتا تھا کتبوں میں کبھی
ہم بھی آنکھوں میں مزاروں کا دھواں رکھتے تھے
کس قدر سادہ تھے ثاقب مرے زخموں کے شریک
راز کے نقش بھی چہروں پہ عیاں رکھتے تھے
مہمان کی آمد کا کہاں گھر کو پتہ ہے
دروازے نے دستک کا لہو چوس لیا ہے
مُبہم سی کسی چاپ کو دہلیز پہ سن کر
سہمے ہوئے سناٹوں نے دَر کھول دیا ہے
اِک شخص غمِ ذات کے صحرا سے نکل کر
افواہ بہت ہے کہ گرفتار ہوا ہے
شاخوں پر خجل سی ہیں عقائد کی چتائیں
اوہام کے نشے سے بدن ٹوٹ رہا ہے
کس طرح پڑھے آنکھ لکیروں کی حکایت
زخموں کی ہتھیلی میں کرن ہے نہ دِیا ہے
برسوں کہےں پہ صورتِ بادل اُٹھا کرو
ہر رُخ سے دھوپ تےز ہے ساےہ کےا کرو
ےہ درد و غم، ےہ خواب، ےہ ےادےں، ےہ زندگی
موقع ہے ہر فرےب سے کھل کر ملا کرو
بچھڑا ہے ےاد بن کے تو لوٹے گا وہ ضرور
دہلےز بن کے عمر کی گھڑےاں گنا کرو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button