ہادی کا خون رائیگاں نہیں جائے گا بنگلہ دیشی رہنما کی آخری رسومات میں عوام کا سمندر
ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد نے ہفتہ کے روز ڈھاکہ کے قلب میں جمع ہو کر معروف سیاسی کارکن شریف عثمان ہادی کو آخری سلام پیش کیا۔ گولی لگنے سے ہلاک ہونے والے ہادی کی موت نے پہلے ہی سیاسی طور پر کشیدہ ماحول کو مزید بھڑکا دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب قومی انتخابات قریب ہیں۔
صبح سویرے ہی لوگ مانک میا ایونیو کی جانب امڈ آئے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے اطراف علاقہ بھر گیا۔ کئی افراد نے قومی پرچم اوڑھ رکھا تھا جبکہ مجمع سے انصاف اور جوابدہی کے نعرے بلند ہوتے رہے۔
حکومت کی جانب سے سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ جتیہ سنگسد بھون کے ساؤتھ پلازا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جہاں پولیس، بارڈر گارڈ اور دیگر سکیورٹی ادارے تعینات رہے۔ یومِ سوگ کے موقع پر سرکاری و نجی اداروں میں قومی پرچم نصف سرنگوں رکھا گیا۔
نمازِ جنازہ کی امامت ہادی کے بڑے بھائی ابو بکر نے کی۔ بعد ازاں میت کو سخت حفاظتی حصار میں ڈھاکہ یونیورسٹی لے جایا گیا، جہاں انہیں قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کے مزار کے قریب سپردِ خاک کیا گیا۔
تدفین میں محدود افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی، تاہم جنازہ میں شریک عوام نے نعرے لگائے:
ہادی کا خون رائیگاں نہیں جائے گا“ اور ”ڈھاکہ، ڈھاکہ۔
یہ واقعہ ۱۲ فروری کے عام انتخابات سے قبل سیاسی منظرنامے کو مزید حساس بنا چکا ہے۔



