لال قلعہ دھماکہ جےش کے خودکش حملہ آور نے جوتا بم استعمال کیا
لال قلعہ دھماکے کی تحقیقات میں ایک خوفناک موڑ سامنے آیا ہے۔ اداروں کے مطابق جےشِ محمد کے خودکش حملہ آور ڈاکٹر عمر محمد نبی نے مبینہ طور پر ’جوتا بم‘ جیسا طریقہ استعمال کیا، جو دنیا کے خطرناک دہشت گردانہ طریقوں میں شمار ہوتا ہے۔
جلی ہوئی ہنڈائی گاڑی کی تلاشی کے دوران پولیس کو ڈرائیور سیٹ کے قریب ایک جوتا ملا۔ فارنسک ماہرین نے اس جوتے کے اندر عجیب دھاتی ذرات پائے جو ڈیٹو نیٹر کے حصے معلوم ہوتے ہیں۔ مزید تحقیقات میں جوتے اور گاڑی کے ٹائر میں مہلک مادہ ٹی اے ٹی پی (جسے ’’مدر آف سیٹن‘‘ بھی کہا جاتا ہے) کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔
ماہرین کو شبہ ہے کہ حملہ آور نے ڈیٹو نیٹر جوتے میں چھپا کر اسے دبا کر دھماکہ کیا۔ دھماکے میں استعمال مواد میں ٹی اے ٹی پی کے ساتھ امونیم نائٹریٹ بھی شامل تھا، اور اشارے مل رہے ہیں کہ جےش نے بڑی مقدار میں اس مواد کا ذخیرہ کر رکھا تھا۔
گاڑی کی پچھلی سیٹ کے نیچے سے مزید بارودی مواد کے ذرات ملے، جو ظاہر کرتا ہے کہ پوری گاڑی بارود سے بھری فیکٹری بنی ہوئی تھی۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تقریباً 20 لاکھ روپے حملہ آوروں تک ڈاکٹر شاہین کے ذریعے پہنچے، جو مبینہ طور پر اس نیٹ ورک کی مالی معاون تھیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروہ کا بڑا منصوبہ ’ڈی–6‘ تھا، جس کے تحت کئی شہروں میں دو مرحلوں میں حملے کیے جانے تھے۔ بابری مسجد کی برسی پر منصوبہ ناکام ہوا تو دہلی دھماکہ ان کا اگلا ہدف بن گیا۔


